Thursday, September 07, 2023

اسلام میں حیا اور وفا کا تصور

 یہ انسان کی فطرت ہے کہ اس کی طبیعت گناہ کی طرف جلد مائل ہو جاتی ہے۔ انسان کو فطرتا آذاد پیدا کیا گیا ہے۔ سو وہ کسی کے تسلط میں بھی نہیں رہنا چاہتا تو ایسی صورت میں کیسے ایک پر امن معاشرے کی تشکیل ہو گی اور اس میں نافذ کئے جانے والے قوانین کون مرتب کرے گا؟ اور ان کا نفاذ کون کرے گا۔ ؟ 

دنیا کا نظام چلانے کے لئے قانون وہی ہستی مرتب کر سکتی ہے جس نے دنیا بنائی ہے۔۔جو یہ جانتا ہے کہ کیا چیز آپ کی ذہنی و جسمانی صحت ،اور معاشرے کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ جو جزا اور سزا کا مکمل مالک ہو۔  سب اسی کی اطاعت کرتے ہوں۔ اور اسی کے حکم کے پابند ہوں۔ 

اور زمین پر اس کے ماننے والے بندے اس قانون کا نفاذ کریں گے۔ سو اگر اسلامی قانون نہ بھی ہو تو بھی  ہر شخص اس ہستی کے اختیار اور غضب  کے خوف سے اپنا احتساب خود کر سکے۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام میں مرد و عورت دونوں کے لئے حیا اور وفا کا تصور موجود ہے۔ دونوں کو  اللہ تعالی اپنے قانون کا پابند کرتے ہیں تاکہ دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے پر غلبہ پانے کی کوشش نہ کرے۔ اور نہ ایک دوسرے کی حقوق غصب کر سکے۔ 

اللہ تعالی نے مرد و عورت میں فطری کشش رکھی ہے۔ اور انسان کی فطری ضرورتوں کو  پورا کرنے کے لئے نکاح کا حلال راستہ بھی رکھا ہے۔ نکاح کیسے کرنا ہے اس کا طریقہ بھی بتا دیا۔

 اب بات آتی ہے کہ نکاح کے بعد پاکدامنی کیسے برقرار رکھنی ہے؟ 

سب سے پہلے تو اس میں مرد و عورت دونوں کو نظر جھکانے کا حکم ہے۔ 

عورتوں کو اپنے سنگھار نا محرم مردوں سے چھپانے کا حکم دیا تاکہ نہ مرد ان کہ طرف مائل ہوں اور ان کا پردے اور حیا کا حکم دیا تاکہ وہ بھی مردوں کی طرف مائل  نہ ہوں۔ 

اس کے بعد اللہ تعالی نے مردوں اور عورتوں کی ایک دوسرے تک غیر ضروری رسائی کو حرام کر دیا تاکہ فتنے کا دروازہ بند رہے۔

پھر مردوں کو چار شادیوں کی اجازت دی۔ اگر وہ انصاف کر سکتا ہے تو۔۔ یعنی  جذباتی، جسمانی اور مالی طور پر  اگر عورت کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہے تو ایک سے زائد شادیاں کر سکتا ہے۔ 

جب مرد نکاح کے رشتے میں بندھا ہوتا ہے تو وہ اسکی وفاداری یہ ہے کہ کسی اور عورت کو نظر اٹھا کر نہ دیکھے، نہ جذباتی جسمانی اور ذہنی طور پر کسی اور کی طرف متوجہ ہو۔ اور نہ ہی کسی سے زبانی کلامی روابط رکھے۔ اگر مزید نکاح کا ارادہ  رکھتا ہے تو اپنی پسند کے مطابق کسی شخص کو متعین کر دے کہ ایسی لڑکی سے شادی کا خواہشمند ہوں سو وہ اس کے لئے تلاش دے۔۔ اور نکاح سے پہلے اس  عورت کے محرم کی موجودگی میں اسے ایک نظر دیکھ لے۔ 

نیا رشتہ  کرتے وقت اپنے بارے میں ہر ضروری معلومات دے۔ کوئی بھی رشتہ کرتے وقت کسی قسم کی معلومات چھپانا اور اگلے کو دھوکہ دینا خیانت ہے۔ 

 آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے  (اور لوگوں کے رازوں کی)  کھود کرید نہ کیا کرو اور نہ  (لوگوں کی نجی گفتگووں کو)  کان لگا کر سنو، آپس میں دشمنی نہ پیدا کرو بلکہ بھائی بھائی بن کر رہو۔   

 اور کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے یہاں تک کہ وہ نکاح کرے یا چھوڑ دے۔

(صحیح بخاری:5143) 

یہ اسلام ہے کہ ایک شخص نے اگر کہیں نکاح کا پیغام بھیجا ہے تو جب تک رشتے کا کوئی منطقی انجام نہ ہو جائے کوئی دوسرا شخص اپنا رشتہ نہ بھیجے۔ 

اور  اسی طرح نہ ہی یہ مناسب ہے کہ ایک جگہ آپ کے رشتے کی بات منطقی انجام کو نہ پہنچی ہو اور آپ دوسری جگہ بھی رشتے کی بات چلا دیں۔ نہ ایک کو پوری معلومات دیں نہ دوسرے کو۔۔ یہ نہ دین ہے ، نہ مصلحت، بلکہ کھلا دھوکہ ہے۔۔ 

عورت کے لئے وفاداری یہ ہے کہ جب وہ ایک شخص سے نکاح کر لیتی ہے۔ تو جب تک اس کے نکاح میں ہے۔ اپنی عزت، اس کے بچوں اور اس کے مال کے بارے میں اللہ کو جواب دہ ہے۔ نکاح کے دوران کسی اور مرد سے دل لگی کے مراسم رکھنا اور نکاح کے دوران کسی اور کو پسند کرکے اپنے پہلے شوہر کو چھوڑنا بھی سخت خیانت ہے۔ 

اگر عورت  اپنے شوہر کے ساتھ وفادار نہیں رہ سکتی تو بہتر ہے کہ طلاق لے کر عدت گزارے اور کسی نئے آدمی سے نکاح کر لے۔ 

مگر اللہ کے لئے نہ تو اللہ کے قانون کو پامال کریں اور نہ ان سے مذاق کریں۔۔ 

اگر آپ نے دنیا کے معیار پر کسی سے روابط بڑھاۓ ہیں تو اس پر اللہ کا قانون کیسے نافذ کریں گے؟ اور صرف آپ کی پسند ہی نہیں آپ بھی اللہ کے قانون کے پابند ہیں۔ اللہ نے تو کسی نامحرم سے تعلقات رکھنے کی اجازت ہی نہیں دی تھی۔ 

آپ نے اپنی پسند کو اللہ کی پسند میں نہیں ڈھالنا ۔ اللہ کی پسند میں اپنے آپ کو ڈھالنا ہے۔۔۔ اللہ انسانوں کا پابند نہیں ہے۔ مگر ہر انسان طوہا یا کرھا اللہ کے قانون کاپابند ہے۔سو جب بھی فیصلہ کرنا ہو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق کیجۓ۔۔ تاکہ اللہ کے ۔ غضب سے بچ سکیں

 اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اصلاح فرما دے۔ آمین۔۔