Monday, October 15, 2012

ایک مکڑا اور مکھی

اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا
اس راہ سے ہوتا ہے گذر روز تمہارا

لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت
بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا

غیروں سے نہ ملئے تو کوئی بات نہیں ہے
اپنوں سے مگر چاہیئے یوں کھچ کے نہ رہنا




آؤ جو مرے گھر میں تو عزّت ہے یہ میری
وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا

مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی
حضرت! کسی نادان کو دیجئے گا یہ دھوکا!

اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا



مکڑے نے کہا: واہ! فریبی مجھے سمجھے
تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا

منظور تمہاری مجھے خاطر تھی، وگرنہ
کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا

اُڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے
ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا؟


اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں
باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا

لٹکے ھوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے
دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا

مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے
ہر شخص کو ساماں یہ میّسر نہیں ہوتا




مکھی نے کہا:خیر! یہ سب ٹھیک ہے لیکن
میں آپ کی گھر آؤں،یہ امید نہ رکھنا

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے
سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا!

مکڑے نے کہا دل میں، سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا



سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دنیا میں جسے دیکھو خوشامد کا ہے بندہ

یہ سوچ کر مکھی سے کہا اس نے بڑی بی!
اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبہ!

ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبّت
ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا


آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ھوئی کنیاں
سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا

یہ حسن ،یہ پوشاک، یہ خوبی، یہ صفائی
پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا

مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی،
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا



انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں
سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا

یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا

بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کر مکھی کو اڑایا


 (علّامہ محمد اقبال)