خدا سے حسن نے اک روز يہ سوال کيا
جہاں ميں کيوں نہ مجھے تو نے لازوال کيا
ملا جواب کہ تصوير خانہ ہے دنيا
شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنيا
ہوئي ہے رنگ تغير سے جب نمود اس کي
وہي حسيں ہے حقيقت زوال ہے جس کي
کہيں قريب تھا ، يہ گفتگو قمر نے سني
فلک پہ عام ہوئي ، اختر سحر نے سني
سحر نے تارے سے سن کر سنائي شبنم کو
فلک کي بات بتا دي زميں کے محرم کو
بھر آئے پھول کے آنسو پيام شبنم سے
کلي کا ننھا سا دل خون ہو گيا غم سے
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گيا
شباب سير کو آيا تھا ، سوگوار گيا
علامہ محمد اقبال
No comments:
Post a Comment